یہ عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ غیروں کی تقلید میں
مسلمانان عالم نے بہت سی ایسی چیزوں کو اپنا لیا ہے جو دین اسلام سے براہ راست
متصاد م ہیں ۔ صرف یہی نہیں، مسلمان اس قسم کے رسم ورواج کو اپنا میں فخر بھی
محسوس کرتے ہیں جو کہ اسلام بیزار ی کی واضح نشانی ہے۔ ان بدتہذبیوں میں ایک اپریل
فول منانے کی روایت ہے جو نہایت ڈھٹائی سے مسلم امہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔
ہر سال نہایت جوش وخروش کے ساتھ یہ دن منایا جاتاہے اور رات گئے محفلیں گرم رہتی
ہیں کہ فلاں نے اتنے لوگوں کو بے وقوف بنایا اور فلاں نے اتنی تعداد میں جھوٹ بول
کر اپنی فنکاری کاسکہ بٹھایا۔
اپریل فول کا یہ فتنہ امت مسلمہ میں موجود ان فتنوں میں سے
ایک ہے جن کی وجہ سے عالم اسلام زبوں حالی کاشکار ہے، اور اخلاقیات اپنی نچلی
منزلوں اور سطحوں کو چھو رہے ہیں۔ یہود ونصار کی پیروی کرتے کرتے ہم اتنا گرچکے
ہیں اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو معاف نہیں کرتے اور جھوٹ بول کر انہیں بے وقوف
بنانے پر تلے رہتے ہیں۔
اپریل فول کا پس منظر
چند حکایتں نقل کی جاتی ہیں جن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بے
ہودہ روایت کیسے پروان چڑھی اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ
ان حکایتوں کی کوئی اصل ہے اور یہ مستندروایات سے منقول ہیں، لیکن بہرحال ہمیں یہ
اندازہ ہوجائےگا کہ مسلمان ہونے کے حیثیت سے ہم اس وقت کس مقام پر کھڑے ہیں ۔ اگر
بالفرض ان میں سے کوئی حکایت سچی ثابت ہوجائے تو بھی اپریل فول منانا ہم پرایک
طمانچے کے متراد ف ہوگا۔
نئے سال کا آغاز اب تو جنوری میں ہوتا ہے لیکن قدیم تہذیبوں
کے زمانے میں اس کا آغاز یکم اپریل کو ہوتا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب ہندومت اور
قدیم رومن لوگ اپنا سکہ منوائے ہوئے تھے اور انہی کی مناسبت سے پوری دنیا انہی کے
مطابق اپنے ماہ وسال مقرر کرتے تھے۔ کوئی 1582 کا زمانہ ہوگا جب پوپ جورج ہشتم نے
ایک انقلابی تبدیلی کی اور پرانے جولین کیلنڈر کی جگہ ایک نئے کیلنڈر کو رواج دیا
اور یوں بجائے یکم اپریل کے یکم جنوری سال کا پہلا مہینہ قرار پایا۔
یہی وہ سال تھا جب فرانس نے بھی نیا جورجین کیلنڈر چنا اور
پھر اسی وقت تک آج تک یکم جنوری سال کا آغاز قرار پایا ہے۔ روایات متضاد ہیں لیکن ایک بات جو مشترک ہے وہ
یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں اس نئے اعلان کے باوجود لوگ یکم اپریل کو ہی
سال کا پہلا دن قرار دیتے رہے۔ یا تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اقوام عالم نے اس اعلان
کو مسترد کردیا ہوگا یا پھر دوردراز کے علاقوں تک اس نئے اعلان کی بروقات اطلاع نہ
پہنچ سکی ہوگی۔ خیر معاملہ جو بھی ہو، خرابی کی بنیاد یہی سے شروع ہوئی۔ جدت
پسندوں نے قدامت پسندلوگوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور اتفاق سے یہی دن یکم
اپریل ہی اس واہیات حرکت کے لیے چنا گیا۔ قدامت پسندوں کا مذاق اس طرح اڑیا جاتا
کہ یکم اپریل کو جھوت پر ان کایقین پختہ کرنے کے لیے نئے سال کی تقریبات کے دعوت
نامے بھیجنے شروع کیے۔ حالانکہ جدت پسند تو یکم اپریل کو سال کا پہلا دن قرار ہی
نہیں دیتے تھے۔ بعد میں اس میں توسع ہوا اور پورپ کے ہر چھوٹے بڑے شہر ، گائوں ،
قصبہ میں یہ روایت پھیلتی چلی گئی اور یوں لوگ
ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کے لیے اور جھوٹ بولنے کے لیے اسی دن کو تواتر سے
استعمال کرنے لگے۔
ایک اور واقعہ
ایک اور واقعہ بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے جس کا تعلق
مسلمانوں کے اس دور سے ہے جب وہ سپین پر حکمران تھے۔ قریبا آٹھ سو سال حکومت کرنا
ایک غیر معمولی بات تھی، اور عیسائیوں کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہورہی تھی۔ اس
دوران عیسائیوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنےاور ان کاقلع قمع کرنے کی جتنی بھی تدبیریں
کیں وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں ۔
تاہم ان کی کوئی بھی مذموم کوشش کامیاب نہ ہوئی ۔ ناکامیوں
کا منہ دیکھنے کے بعد ان کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ آخر وہ راز کیا ہے جس کے
بنائ پر مسلمان ناقابل شکست بنے ہوئے اور ہماری کوئی تدبیر بھی کارگر نہیں ہوتی۔
اس غرض سے انہوں نے اپنے جاسوس سپین روانہ کیے تاکہ اس راز تک رسائی حاصل کریں۔
جاسوسوں نے جو رپورٹ دی وہ آج کل کے مسلمانوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ انہوں نے
رپورٹ میں کہا کہ مسلمان ان وجوہات کی بنا پر ناقابل شکست ہیں
ان میں تقوی موجود ہے
مسلمان قرآن وسنت پر دل وجان سے عمل کرتے ہیں اور اس کے
مقابلے میں کسی بھی چیز کو ٹھکرانے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔
مسلمان منکرات، حرام، اور نامناسب چیزوں سے حد درجہ اجتناب
کرتے ہیں۔
یہ راز ایک عجیب راز تھا جس پر وہ لوگ حیران بھی ہوئے اور
پریشان بھی۔ اپنے سارے منصوبے چھوڑ چھاڑ کے صرف ایک نکتے پر متفق ہوئے کہ کیسے
مسلمانوں سے ان عادات کو ختم کیاجائے۔
عجیب حکمت عملی
مسلمانوں سے ان کا قرآن وحدیث سے رشتہ ختم کرنا اتنا آسان
نہ تھا۔ لیکن انہوں نے ترکیب ایسی عجیب سوچی مسلمان اپنے دین سے دور ہوتے چلے گئے۔
شراب اور سگریٹ کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور مسلمانوں میں دھڑا دھڑ اس کا
استعمال عام ہونے لگا۔ یہ چیزیں، جو فطری طور پر انسان کو اخلاقی لحاظ سے کمزور
کردیتی ہیں، اپنا رنگ دکھانے لگیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عام مسلمان بالعموم، اور
نوجوان نسل بالخصوص اس چال کا شکار ہوئی اور ان میں ایسی اخلاقیاں کمزوریاں پیدا
ہونے لگیں کہ جن کاماضی میں تصور بھی نہیں کیاجاتاتھا۔
اور مسلمان سپین سے بے دخل کردیے گئے
ایک دیرینہ خواب تھا، جو تکمیل پذیر ہوا، ایک آرزو تھی جو
برآئی اور مسلمانوں کو سپین سے چلتا کردیاگیا۔ مسلمان سارے سپین سے پسپا ہوتے گئے
اور آخر ی وہ جگہ جہاں سے آخری مسلمان کو نکالا گیا ، غرناطہ شہر تھا جو کہ
مسلمانوں کی واحد اور آخری جگہ تھی جو طاقت کا سرچشمہ کہلانے کی لائق تھی۔ افسوس !
وہ دن کہ جہاں سے مسلمانوں کا غرناطہ سے خروج ہوا، یکم اپریل تھا۔ یہی وہ دن ہے جس
کو عیسائی مسلمانوں سے نجات کا دن قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ دن ہے جس کو وہ منانے میں
اس لیے حق بجانب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے۔ انگریزی میں
اس کو فول ڈے کے طور پر یاد کیا جائے جس کا معنی ہے بے وقوف بنانے والا دن۔ امید
ہے اس ساری کہانی سے اس کی وجہ تسمیہ بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ یہ دن اپریل فول کیوں
کہلاتا ہے۔
اپریل فول کے نقصانات
صرف یہی نہیں کہ جھوٹ بری چیز ہے اس لیے اپریل فول منانا
نامعقول اور ممنوع ہے بلکہ اس لیے بھی اس کے پیچھے ایسے ایسے نقصانات ہیں جن کے
تصور سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات ہیں کہ کسی منچلے نے تو لے میں
آکر جھوٹ بول دیا لیکن اس کا خمیازہ دوسرے کو بھگتنا پڑا اور ساری زندگی کسمپسری
کی حالت میں گزاری
کئی ایسے لوگ ہیں جو کہ صدمے کی وجہ سے جان سے گئے اور کئی
گھر کی چہار دیواری تک محصور ہوکر رہ گئے کیونکہ کسی کی چھوٹی سے حرکت نے ان کو
ہمیشہ کے لیے معذور کردیا۔ طلاقوں کی تعداد جو اپریل فول منانے کی وجہ سے وقوع
پذیر ہوئی، شمار سے باہر ہے۔ ہزار وں خوش وخرم جوڑے ، جو شاید ہمیشہ ساتھ نبھاتے ،
اپریل فول کے بھینٹ چڑھ گئے اور ان کے درمیان مثالی محبت مثالی نفرت میں بدل گئی۔
کبھی کسی نے مذاق کرنے والے نے سوچا کہ اس کا کفارہ کیسے ہوگا؟ کبھی اپریل فول
منانے والے نے ذرہ برابر بھی یہ احساس کیا کہ جو میں حرکت کرے جارہا ہوں، اس سے
زندگی کتنی تلخ ہوجائےگی ؟
اپریل غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے
قطع نظر اس بات کے کہ معاشرے پر اس کے کتنے برے اثرات مرتب
ہوتے ہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس کا شرعی حکم بھی معلوم ہونا چاہیے۔
چونکہ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، اس لیے اس کو کسی طور پر بھی حلال یا جائز کے
زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ جھوٹ کو منافق کی علامات میں قرار دیا گیا ہے جس کی
اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص اللہ
اورآخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ دوکاموں میں سے ایک کرے، سچ بولے یا چپ
رہے۔ علاوہ ازیں، ایسا شخص جو جھوٹ کا سہارا لے لے کر اور مذاق بنا بنا کے لوگوں
کو ہنساتا ہے اور اپنے تئیں بڑا نیکی کا کام کررہا ہے کہ لوگوں میں خوشیاں بانٹ
رہا ہے۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی لعنت فرمائی ہے۔
یہود ونصاری سے مشابہت
یاد رکھیے اپریل فول نہ صرف یہ کہ جھوٹ ہونے کی وجہ سے
ممنوع ہے بلکہ اس کے ناجائز ہونے کی وجہ یہود ونصاری سے مشابہت بھی ہے۔ اللہ تعالی
سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور اس جیسی بے کار رسم
ورواج اور لغویات سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔
No comments:
Post a Comment