کیا افغان طالبان واقعی حکومت سے مذاکرات کررہے ہیں؟
افغانستان میں جو کشمکش جاری ہے، بلاشبہ ان مسائل میں سے
ایک ہے جو پاکستانی عوام اور حکومت کے قابو میں نہیں ہے۔ یہ سوال ہر ذہن میں گردش
کررہا ہے کہ کیا طالبان حکومت سے مذاکرات کرنے کو ترجیح دیں گے یا اپنی توانائیاں
جنگ جاری رکھنے پر خرچ کرتے رہیں گے؟ گوکہ یہ سوال کافی زمانے سے لوگوں کے ذہن میں
سمایا ہوا ہے لیکن اس میں ابھار اس وقت آیا جب ایک نیوز رپورٹ نے دعوی کیا کہ
ستمبر اور اکتوبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور کابل کے تحت نشین
حکمرانوں کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے ہیں۔ طالبان نے اپنی عادت کے مطابق اور
لوگوں کی توقعات کے عین مطابق فوری طور پر اس کی تردید جاری کرنا ضروری سمجھا۔ نہ
صرف یہ کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان مذاکرات کی تردید کی ، بلکہ
انکے سیاسی کمیشن کے رکن سہیل شاہین نے بھی اس کا انکار ضروری سمجھا۔ البتہ تردید
میں فرق یہ تھا کہ ذبیح اللہ مجاہد نے لگی لپٹی بغیر دوٹوک الفاظ میں مسترد کردیا
البتہ سہیل شاہین نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے ایک سیاسی چال قرار دیا۔
اس خبر کو مستر د کرنا آسان نہیں تھا !
خبر جن ذرائع سے موصول ہوئی، ان کا سابقہ ریکارڈ اس بات کی
اجازت نہیں دیتا تھا کہ بیک جنبش قلم اس کو مسترد کردیا جائے۔ گارڈین ، جو کہ ایک
موقر جریدہ اور اخبار ہے، اس کے مطابق ان مذاکرات کا ہونا یقینی تھا۔ خبر کی ساکھ
کو مزید تقویت اس وقت ملی جب یہ خبر آئی کہ ان مذاکرات میں امریکی افسران بھی شریک
ہوئے۔ علاوہ ازیں ، کچھ طالبان نمائندوں نے بھی اس خبر کی تصدیق کی البتہ یہ تصدیق
بے نام ذرائع سے تھی۔ دوسری طرف صدر اشرف غنی کے دفتر اور افغان ہائی پیس کونسل کے
ترجمان سے بھی اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ یہاں ایک نکتہ قابل غور یہ ہے
کہ اگر واقعی افغان طالبان کے حکومتی اہلکاروں سے مذاکرات ہوئے ہیں تو افغان صدر
اشرف غنی لاعلم کیسے رہ سکتے ہیں حالانکہ ان مذاکرات کے لیے صدر کی اور افغان پیس
کونسل کی منظور ی ضروری تھی۔
ملامحمد عمر کے بھائی کی اعلی انٹیلی جنس افسر سے ملاقات !
کچھ میڈیا رپورٹس ایسی بھی موصول ہوئیں جن میں ملامحمد عمر
رحمہ اللہ کے بھائی ملا عبد المنان کی اعلی انٹیلی جنس افسر محمد معصوم ستان کزئی
سے ملاقات کا دعوی کیا گیا۔ کچھ اطلاعات تو ایسی بھی ہیں کہ اس ملاقات میں صدر غنی
کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمر بھی موجود تھے۔ مگر زیاد ہ تر رپورٹس
میں اعلی افسران کی ملاقات کا دعوی کیا گیا ۔
کیا ملا عبد المنان کی ملاقات اہم ہے؟
مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کو جمع کرنے کے بعد یہ
نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ملاعبد المنان کی ملاقات اتنی اہم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ یہ ملاقات ان کی ذاتی حیثیت سے تھی، نہ کہ طالبان کے نمائندہ کے طور پر۔
طالبان کے تمام معاملات شورائی نظام کے تحت چلتے ہیں اور ان کی تنطیم کا نام طالبان
رہبری شوری ہے ، وہ اس منظر نامے میں یکسر غائب نظر آتی ہے ۔ اسی طرح طالبان کے
امیرالمومنین اور سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ کی جانب سے ایسا کوئی گرین سگنل نہیں
ملا کہ وہ اپنے اہلکاروں کو اس میٹنگ یا مذاکرات میں شرکت کی اجازت دے رہے ہوں۔ ان
مذاکرات کی عدم اہمیت اس وقت مزید اجاگر ہوجاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ طالبان
کا سیاسی کمیشن اس میٹنگ میں موجود نہ تھا، حالانکہ عین اسی وقت ، جس وقت کہ یہ
مذاکرات مبینہ طور پر چل رہے تھے، یہی سیاسی کمیشن دوحہ قطر میں موجود تھا۔ قطر
میں موجودگی کے باوجود میٹنگ میں شرکت نہ کرنا معنی خیز ہے۔
کیا پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرسکتاہے؟
اگرچہ دنیا کی نظر میں پاکستان واحد ملک ہے جس کا طالبان پر
اثررسوخ ہے اور وہ طالبان کو مذاکرات پر نہ صرف آمادہ کرسکتاہے بلکہ ان مذاکرات
میں موثر بھی ثابت ہوسکتاہے۔ لیکن بدقسمتی سے صورتحال ایسی نہیں ہے۔ طالبان جو ایک
وقت میں پاکستان کو اپنا دوست سمجھتے تھے، اپنے اس خیال سے رجوع کرچکے ہیں۔ طالبان
کی قیادت کا پاکستان سے گرفتار ہو نا اور پھر امریکہ کے حوالے کیا جانا ایسی باتیں
ہیں جن کی وجہ سے طالبان کے دل میں پاکستان کا وہ مقام نہیں رہا جو ماضی میں
ہوتاتھا۔
گلبدین حکمت یار کا حکومت سے معاہدہ
گلبدین حکمت یار افغان حکومت سے ایک خاص معاہدہ کرچکے ہیں،
لیکن اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ طالبان کے ساتھ حکومت کے معاہدے کی ہوسکتی
ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گلبدین کے پاس جنگجوئوں کی کمی ہے۔ طالبان نہ صرف یہ کہ خطے میں
اثر ورسوخ رکھتے ہیں بلکہ افراد ی قوت کے ساتھ نمایاں طور پر افغانستان کے نقشے پر
ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment