ٹریفک کے حادثات نئے نہیں ہیںِ یہ تب سے ہیں جب سے ٹریفک
وجود پذیر ہوا ہے۔ ٹریفک حادثات پاکستان میں بھی ہوتے ہیں، اور دوسرے ممالک میں
بھی، لیکن وجوہات قدرے مختلف ہیں۔ اس کالم کا مقصد دوسرے ممالک کے حادثات کی
وجوہات جاننا نہیں، بلکہ پاکستان میں یہ حادثات کیوں اتنی کثرت سے وقوع پذیر ہوتے
ہیں، ان کے اسباب پر قدرے نظر ڈال لیتے ہیں۔
پہلا سبب - اصولوں
پر سمجھوتہ نہیں
ہماری قوم اپنے اصولوں کی بہت پکی ہے۔ اصولوں پر عمل کرنا
ہمارے رگ وریشے میں داخل ہے اور اس سلسلے میں ہم اتنے جذباتی واقع ہوئے ہیں کہ اس
کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔
کچھ دوستوں کے ساتھ ایک تقریب سے واپسی ہورہی تھی، سب دوست گاڑی میں خوش گپیوں میں
مصروف تھے اور تقریب کا احوال دہرارہے تھے۔ دوران "پرواز" دوبسیں سامنے
سے آتی دکھائی دیں، مجال ہے کہ ان میں کوئی آگے یا پیچھے ہو، بالکل سیدھ میں ہماری
طرف ایسے بڑھ رہی تھی، جیسے وہ آپس میں مقابلے کرنے کے بجائے ہمیں مارنے میں پہل
کررہی تھی۔ ہمارا ڈرائیور بجائے اس کے کہ ان سے کنی کتراتا، سیدھا ان کی طرف چلا
جارہاتھا۔ ہم خاموش تھے، یہی سوچ کراپنے غصے پر قابو رکھے ہوئے تھے کہ قریب آنے پر
ہمارا ماہر فن ڈرائیور "کچے " پر اتار لے گا اور اس طرح ہماری جان بخشی
ہوجائے گی۔ لیکن یہ کیا، بسیں بالکل قریب آگئیں، اور میں نے ہڑبڑاتے ہوئے اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھا اور کہا بھئی
کیا کررہے ہو؟ ڈرائیور نے نہ چاہتے ہوئے گاڑی کچے پر موڑ لی اور ہم قریب ہوئی موت
کا شکار ہونے سے بچ گئے۔
جب حواس بحال ہوئے تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا بھائی کیا
با ت ہے کہ آج تم اپنی جان کی پرواکررہے تھے اور نہ ہماری جان کی ؟ جواب آب زر سے
لکھنے کے قابل ہے۔ بولا آپ کی وجہ سے میں نے اپنا اصول توڑ دیا ہے۔ میں تو اپنی
سیدھ اور لائن میں جارہاتھا وہ دونوں غلط لائن پر تھے۔ میں اپنی لائن تبدیل نہیں
کرنا چاہتا تھا۔
دوسرا سبب – ہم لوگ فضول چیزوں پر وقت ضائع نہیں کرتے
وقت بہت قیمتی چیز ہے۔ اس کا احساس جہاں دوسری اقوام کو ہے
، ہماری قوم بھی وقت کی قدر شناس ہونے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ سرخ بتی پر کھڑا
ہونے میں چند سیکنڈ ضائع کرنے میں بھلا کونسی دانشمندی ہے؟ خصوصا جبکہ یہ وہ نشان
ہوتاہے جو ہم بارہا دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
دوران ڈرائیورنگ دائیں یا بائیں جانب مڑنے کے لیے انڈیکیٹر دبانے بیٹھ
جائیں تو سگریٹ یا موبائل فون کی مصروفیت میں خلل آسکتاہے جو کہ کسی طور عقل کے
دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس لیے موبائل فون سے ہاتھ ہٹانے میں ضروری گفتگو رک سکتی
ہے اور یوں ایک بزنس میٹنگ، جو کہ کل صبح گیارہ بجے طے ہونی ہے، منسوخ ہوسکتی ہے۔
یا دوران سگریٹ نوشی ، دوسرے کام میں مصروف ہونے سے آتش زدگی کا امکان بڑ ھ
سکتاہے۔
تیسرا سبب – قومی ثقافت بہت اہم ہے
ہم نہایت تیزر فتار ی سے گاڑی چلاتے جارہے ہیں، مین روڈ ہے
جہاں ٹریفک اپنے عروج پر ہے۔ راستے میں کوئی عزیز یا رشتہ کھڑا ہے جو گاڑی یا ویگن
کے انتظار میں گرمی یا سردی میں بے چین ہے۔ اس وقت ہماری قومی ذمہ داری اور ثقافتی
ورثے میں ملا ہوا احساس ہمدردی اس بات کے
متقاضی ہیں کہ گاڑی روکو اور اس کو بٹھالو۔ اس وقت یہ سوچنا کہ سو دوسو گز آگے
گاڑی روک لیں گے تاکہ پیچھے آنے والی گاڑیاں کسی ناگہانی آفت اور حادثے کا شکار نہ
ہوجائیں، بالکل فضول ہے جس سے ہمارے احساس ہمدردی پرزد پڑسکتی ہے۔ کیا ہوگا اگر
پیچھے آنے والی گاڑی کے بیس پچیس لوگ حادثے کا شکار ہوجائیں؟ ان کی جانیں ہماری
ثقافت سے زیادہ تو نہیں !!!
چوتھا سبب – عوام اور پولیس کا باہمی تعاون
ہماری قوم بہت غریب پرور ہے، پولیس، جس کی تنخواہیں بہت کم
ہیں، ان کا تعاون کرنا ایک قومی فریضہ بنتا جارہا ہے۔ بھلا یہ کونسی سی عقلمندی ہے
کہ پولیس سے "مالی تعاون" کرنے کے بجائے ٹریفک کے اصولوں کی پابندی شروع
کردی جائے؟ یہ ملک جو کہ پہلے غربت کی چکی میں پس رہا ہے، اس مالی تعاون کے بغیر
صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔
پانچواں سبب – ہر شخص "مفکر " ہونے کے بجائے
"متفکر" ہے !!!
دوسری اقوام میں مفکر پیدا ہوتے ہیں، جبکہ ہماری قوم میں
"متفکرین" کی ایک بڑی تعداد وجود میں آچکی ہے۔ دوران ڈرائیورنگ ، انسان
یہاں تفکرات کی دنیا میں گم ہوتاہے۔ پرائیویٹ سکول والوں نے دھمکی دی ہے اگر دس
تاریخ تک فیس ادا نہ کی تو بچے کا نام سکول سے خارج کردیا جائے گااور بھاری جرمانے
کے ساتھ دوبارہ داخل ہوگا۔ بیوی کی فلاں فرمائش پوری نہ ہونے پر وہ آج روٹھ کے
میکے چلے گئی ہے۔ یہ اور اس طرح کے "تفکرات" میں الجھا انسان جب
ڈرائیورنگ کرے گا تو محفوظ سفر کی کوئی ضمانت نہیں۔
No comments:
Post a Comment