وہ بڑا ضدی واقع ہوا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کی ضد تھی وہ یہ سودا
فیس بک کے دفتر یا عالیشان ہوٹل میں نہیں کرے گا بلکہ شہر کی فلاحی عمارت میں ہی
کرےگا۔ ہر چند کہ فیس بک کی انتظامیہ نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے
سود۔ سودا غیر معمولی تھی اور فیس بک انتظامیہ کسی صورت یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی
تھی۔ لہذا وہ لوگ اس ضدی آدمی کے سامنے ہار
مان گئے اور اس کی پسندیدہ جگہ پر
معاہدہ کرنے پر راضی ہوگئے۔
اس سے پہلےکہ فیس بک والے اس عمارت تک پہنچتے ، یہ پہنچا ہوا
تھا۔ آخر میں واقع ایک بوسیدہ کرسی پر بیٹھا سرجھکائے کسی سوچ میں مشغول تھا۔ لوگ
قریب آئے اور جھکی ، پست، اور آہستہ آواز سے انگلش میں کہا
We are Here Mr Jain
اس نے ٹشو پیپر سے اپنے چھلکتے آنسو پونچھے ، ہاتھ میں قلم
لیا اور معاہدے کے کاغذات پر دستخط ثبت کردیے۔ معاہدہ کافی لمباچوڑا تھا، وہ دسختط
کرتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 19 بلین ڈالر کابلا شرکت غیرے مالک بن گیا۔
قریبا 38 سال کی عمر میں ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر میں امیر
ترین جاندار کہلاتے ہیں۔
کہانی کا پس منظر
جین کوم نامی اس شخص کی کہانی تو اس سنٹر سے شروع ہوتی ہے
جہاں اس نے فیس بک کے ساتھ معاہدہ کیا۔ لیکن یہ مکمل ابتدا نہیں ! اس سے پہلے
یوکرائن آتا ہے جہاں اس شخص کے آباواجداد رہتے تھے۔ اس کا خاندان یہودی مذہب سے
تعلق رکھنے والا ایک مفلس ولاچار خاندان تھا۔ انتہائی کسمپسری کی حالت میں بتائے
دن اس خاندان کی قسمت میں ازل سے لکھ دیے گئے تھے، گھر میں بجلی، گیس اور پانی
جیسی بنیادی ضرورتیں تک دستیاب نہیں تھیں۔ گرمیاں توجیسے تیسے گزرجاتیں لیکن
سردیوں میں ان کی حالت
دیدنی تھی، اور یہ بھیڑوں کے ساتھ سونے پر مجبور ہوتے۔
غربت میں اضافہ
پہلے ہی یہ لوگ خط غربت سے نیچے لیل ونہار بتانے میں مجبور
تھے، ان کے معاش پر مزید زد اس وقت پڑی جب 1992 میں یہودیوں پر ایک بار ظلم شروع
ہوگیا ۔ اس خاندان میں اختلاف ہوا کہ اس ظلم کی بنا پر وطن چھوڑ دیا جائے یا یہیں
پر رہ کر گزارہ کیاجائے ۔ والدہ ایک طرف تھی اور والددوسری طرف۔ والد یہاں رہنے پر
مصر تھے جبکہ والدہ وطن بیزار۔ ماں نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا، ضروری سامان، جن میں
بیٹے کی پڑھائی کی کتابیں بھی تھیں، بیگ میں ڈالیں اور امریکا مستقل طور پر منتقل
ہوگئے۔ کیلیفورنیا اب ان کا نیا دیس بن گیا جہاں ان کے پاس نہ گھر تھا اور نہ
روزگار۔
خیراتی کھانا کھانے پر مجبور ماں بیٹا
کیلیفورنیا میں دونوں ماں بیٹا خیراتی کھانا کھانے پر مجبور
تھے۔ اس دیار غیر میں ایک فلاحی سلسلہ چل رہا تھا جو کہ شاید اب بھی ہے، جس کو لوگ
فوڈ سٹمپ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ادارہ غریبوں کو مفت کھانا فراہم کرتاہے ۔ غربت
کے ہاتھوں مجبور ماں بیٹا یہی کھانا کھانے پر مجبور تھے۔ چونکہ پڑھائی کا خبط جین
کوم پر بچپن سے سوار تھا، اس نے پڑھائی جاری رکھی لیکن پڑھائی کرنے کے لیےبھی تو
پیسہ چاہیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ پارٹ
ٹائم جاب کی تلاش میں سرگرداں ایک جنرل سٹور پر اسے نوکری ملی اور وہ بھی خاکروب
کی۔ سٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم تک سب صفائی اس کے ذمہ لگادی گئی ۔ کئی سالوں
پر محیط یہ نوکری اسے ایک اور جنون کی طرف لے گئی اور وہ تھا کمپیوٹر پروگرامنگ کا
جنون۔
یاہو میں نوکری اور فیس بک پر نظریں
1997 میں اسے یاہو کی طرف سے پیشکش ہوئی اور فورا اس نے وہ
نوکری جوائن کرلی ۔ نوسال تک ایک کم درجے کی نوکری کی اور خاموشی سے یہ تھکادینے
والا عرصہ گزارا۔ 2004 میں فیس بک لانچ ہوئی اور مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑتے چلی
گئی ۔ یہاں تک 2007 میں اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہونے لگا۔ اس کی
مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جین کوم نے یاہو کو خیر باد کہنا چاہا اور فیس بک میں
اپلائی کردیا۔ نتیجۃ ً فیس بک والوں نے اس کی درخواست کو یہ سوچ کر مسترد کردیا کہ
اس لڑکے میں کوئی خاص ٹیلنٹ نہیں ہے۔
آئی فون خریدنے کا شوق
فیس بک سے مسترد کیے جانے کے بعد اس کے پاس یاہو میں کام
کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس طرح اس میں مزید دوسال وہاں کھپائے۔ حالات اس
قدر اچھے نہ تھے کہ وہ اپنے ائی فون خریدنے کی خواہش کو پورا کرتا۔ اس نے حل یہ
نکالا کہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرنا شروع کردیے۔ قوت خرید حاصل ہونے پر اس نے آئی
فون خریدا جو کہ اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔
آئی فون کے استعمال سے نیا آئیڈیا ملا
آئی فون کے فیچر اس قدر زبردست تھے کہ اس نے اس کے لیے سوچ
کی نئی راہیں کھول دیں۔ اس نے سوچا میں کیوں نہ ایک ایسا پروگرام یا ایسی ایپلی کیشن بنائوں جو ایس ایم ایس کامتبادل ہو۔ نہ صرف یہ اس میں مسیج کرنے کی سہولت ہو
بلکہ تصویریں، آڈیو، اور وڈیو بھی بھیج جاسکے ؟ مزید برآن اس کو کوئی ہیک بھی نہ
کرسکے ۔ آئیڈیا واقعی انوکھا تھا اور اس پر کام کرنا اس سے بھی زیادہ انوکھا۔ اپنے
ایک دوست برائن ایکٹیون کے ساتھ یہ خیال شئیر کیا اور یوں دونوں اس خیال کو عملی
جامہ پہنانے میں دن رات ایک کرنے لگے۔ دوسال کی ان تھک محنت کے بعد انہوں نے وٹس
اپ نامی ایک ایپلی کیشن ایجاد کی اور دیکھتے ہی دیکھتے 2009 میں رونما ہونے والی
اس ایپلی کیشن نے کمیونیکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ پوری دنیا کو جوڑنے
والی یہ ایپ اب ہر سمجھدار آدمی کے سمارٹ فون کی زینت ہے۔
فیس بک کی وٹس اپ میں دلچسپی
2014 آیا ، اور فیس بک نے وٹس اپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے
اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کردی۔ دنیا بھر کی کمپنیاں فیس کے مدمقابل آکر اس
کی بولی لگانی لگیں لیکن جین کوم ہر ایک انکار کرتا رہا۔ فیس بک کیطر ف سے بولی
ملنے پر جین کوم کی ہنسی نکل گئی اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے
" یہ وہ ادارہ ہے جس نے 2007 میں مجھے نوکری دینے سے
انکار کردیا تھا"
ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا اور اسی دوران اس نے فیس بک کو
ہاں کردی اس لیے کہ رقم اس کی سوچ سے بڑھ کر تھی۔ جی ہاں ! 19 بلین ڈالر میں سودا
پکا ہوگیا۔
وٹس آپ – تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ
اس وقت تقریبا ایک ارب لوگ اس ایپ کو استعمال کررہے ہیں اور
دنیا بھر میں اس کو محفوظ ترین اور تیز ترین ذریعہ ابلاغ تصور کیا جاتاہے۔ دنیا کے
کسی کونے میں بھی چلے جائیں تو پاکستانی نمبر پر یہ ایپ اگر رجسٹر ہے تو نیا نمبر
اور نیا فون لینے کی ضرورت نہیں۔ پوری دنیا میں رابطے کے لیے آپ کا یہی پاکستانی
لوکل نمبر ہی کافی ہوگا۔
وٹس اپ کی کہانی ہمیں عزم وہمت کا سبق سکھاتی ہے
یہ داستان ثابت کرتی ہے کہ انسان ڈٹا رہے اور مقصد کی لگن
کو دل سے مٹنے نہ دے تو اللہ تعالی انسان کو ضرور کامیابی سے نوازتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment