Saturday, 29 April 2017

فون جلد چارج کرنے اور بیٹری کو دیرپا بنانے کی مفید طریقے

فون جلد چارج کرنے اور بیٹری کو دیرپا بنانے کی مفید طریقے
smartphone battery life


سمارٹ فونز استعمال کرنے والے جہاں ایک طرف ان کے اعلی قسم کے فیچرز سے خوش ہیں وہیں  بیٹری ان کے لیے ایک بڑا درد سر ہے۔ نہ صرف یہ کہ چارجنگ جلد ختم ہوجاتی ہے ، بلکہ چارج کرنے کا دورانیہ بھی غیر معمولی طور پر طویل سے طویل تر ہوتا جاتاہے۔ نئے سمارٹ فونز جلد چارج ہوجاتے ہیں اور ان کی بیٹری بھی قدرے بہتر کام کرتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صارفین دوطرح کی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، بیٹری کا جلدی چارج نہ ہونا اور جلدی ختم ہوجانا۔ 

ذیل میں چند احتیاطی تدابیر لکھی جاتی ہیں جن کو اپنا کر اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایاجاسکتاہے۔

1.     چارجز ہمیشہ اویجنل استعمال کریں، عام طور پر دوکاندار اصل چارجز حوالے کرنے سے کتراتے ہیں، یا تو اس لیے کہ ان کے پاس موجود ہی نہیں ہوتا اور یا اس لیے کہ وہ اصل چارجز کسی اور کے لیے سمبھال کر رکھتے ہیں۔

اصل چارجز نہ ملنے کی صورت میں ملتا جلتا چارجز استعمال کریں۔ کبھی بھی سستے چارجز خریدنے کی زحمت نہ کریں۔

فون کو گرم جگہ پر رکھنے سے مکمل اجتناب کریں

غیر معمولی ایپس انسٹال اور ڈاون لوڈ کرنے گریز کریں۔ یہ نہ صرف بیٹری کی مدت کم کردیتے ہیں بلکہ آپ کے فون پر غیرضروری بوجھ کا باعث بھی بنتے ہیں۔

نوٹیفیکیشن آف کردیں۔ عام طور پر لوگ ان کو آن رکھتے ہیں تاکہ ہر ضروری مسج کی بروقت اطلاع مل جائےلیکن یہ اچھا طریقہ 
نہیں ۔ ضروری بات پر اگلا آدمی فون بھی تو کرسکتاہے، لہذا مسج اور دیگر آڈئو اور وڈیو پیغامات کے لیے نوٹیفیکیشن آف ہی رکھیں تو بہتر ہے۔

دوران چارجنگ فون آف رکھیں، چارجنگ کے دوران فون آن رکھنے سے چارجنگ کی سپیڈ کم ہوجاتی ہے۔  

سوشل میڈیا اور ہماری بے اعتدالیاں Using social websites

سوشل میڈیا احتیاط سے استعمال کیجئے
facebook

ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کا پھیلا و جس تیزی سے ہورہا ہے اس کا اندازہ آج سے دس پندرہ برس پہلے ناممکن تھا۔ فیس بک ہو یا وٹس اپ، انسٹا گرام ہو یا ٹوٹر، ہر طرف پاکستانی چھائے ہوئے ہیں اور اپنے دن کا اکثر حصہ یہاں ان مشاغل میں صرف کرتے ہیں۔ یہ مسلم ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے بہت فوائد ہیں جن میں قابل ذکر معاشرتی بیداری ہے لیکن بایں ہمہ، کچھ نقصانات بھی ہیں جن سے انکار کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنی مصروفیات کا جائز ہ لیں اور اپنے ان رویوں میں تبدیلی لائیں جو ممکنہ طور پر بڑے خطرے یا نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

ذیل میں چند ایسے رویے ذکر کیے جارہے ہیں جن سے بچنے کی اشد ضرورت ہے اس لیے کہ ان سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہوتاہے۔ وہ نقصان آپ کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات متعدی ہوکر آپ کے اعزہ واقارب اور دوسروں تک بھی پہنچ سکتاہے۔  

غصے کا اظہار

anger management
بعض اوقات ، جب ہم کسی دوست سے خفا ہوں، کسی رشتہ سے کسی بات پر ناراض ہوں، اپنے محبوب سے دلبرداشتہ ہوں، تو سوشل میڈیا کو پہلا اور آخری سہارا مانتے ہوئے ناراضگی کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔ یہ اظہار مختلف صورتوں میں ہوسکتاہے ،مثلا کوئی وڈیو پوسٹ کردی، کوئی تبصرہ لکھ مارا، کسی پوسٹ کے جواب میں ایسے الفاظ لکھ دیے کہ دیکھنے والا اس نفرت کو اپنی گہرائی تک محسوس کرجائے۔ 

یاد رکھیں ! یہ عمل کسی فائدہ پر منتج نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے آپ خود مذاق کا نشانہ بنیں گے۔ علاوہ ازیں ، آپ کے غصے کا نشانہ جو لوگ بنیں گے ان سے آپ کے تعلقات ناہموار ہونگے اور وہ آپ سے تعلق رکھنے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونگے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ غصہ کا اظہار کا مناسب موقع تلاش کیجئے یا غصہ کو پینے کی کوشش کیجئے لیکن اس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہرگز نہ کیجئے  

سوشل میڈیا استعمال کرنے کی وجوہات کیاہیں؟
social media management

دن کا اکثر حصہ فیس بک پر گزارنے کے باوجود، کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ اتنا وقت کیوں ضائع کررہے ہیں؟ ضرور اس بات پر غور کیجئے کہ سوشل میڈیا کا اتنا استعمال آپ کو کوئی فائدہ بھی پہنچا رہا ہے یا سوائے ضیاع وقت کے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آرہا؟ ایک وقت مقرر کرلیں جس کو آپ سوشل میڈیا کے لیے مختص کردیں اور اگر اس دوران آپ کے دوست یا رشتہ دار آ جاتے ہیں تو ان کووقت دیں اور ان سے باتیں کرنے کو ترجیح دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو سوشل میڈیا سے بھی آپ کو کچھ حاصل نہ ہو اور اپنے دوستوں ، اعزہ واقارب سے بھی آپ دور ہوتے چلے جائیں ۔ 

دوسروں کی تصاویر بغیر ان کے اجازت کے شئیر کرنا
کچھ ذہنوں میں یہ بات سماگئی ہے کہ کوئی بھی خاص موقع ہو ، اس کی تصاویر اپنے فیس بک پروفائل پر ضرور اپ لوڈ کرنی ہیں۔ یہ رویہ اگر اپنی ذات تک ہوتا تو کچھ بات تھی، لیکن غضب یہ ہے کہ مخصوص پارٹی میں انسان میں اکیلا نہیں ہوتا، باقی لوگ بھی ہوتے ہیں، تصاویر کی اپ لوڈنگ میں ان لوگوں کے تصاویر بھی آپ کی پروفائل پر چلی جاتی ہیں جن سے آپ نے اجازت نہیں لی ہوتی یا وہ اپنی تصویر اس طرح سے استعمال کرنے کی آپ کو اجازت نہیں دے رہے ہوتے ۔ اگر یہ حرکت کرنی بہت ہی ضروری ہو تو کم ازکم اپنے ان دوستوں سے پوچھ لیا کریں جو تصویر میں آپ کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ ورنہ بغیر اجازت کے یوں اس طرح کسی کی تصویر پر سوشل میڈیا پر شئیر کرنا آپ کے تعلقات کو بگاڑ سکتاہے۔  

اپنی ذاتی معلومات شئیر کرنا

بعض دوست اس جنون میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی ہر لمحے کی مصروفیات فیس بک دوستوں کے ساتھ شئیر کرنا نہیں بھولتے ۔ مثلا ، اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہوں تو یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دوستوں کو اس کی اطلاع ہوجائے ۔ یاد رکھیں ، اس طرح کی مصروفیات کو کھلے عام ہر ایک کے ساتھ شئیر کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، نہ صرف آپ کے لیے بلکہ آپ کے رشتہ داروں کے لیے بھی۔ لہذا اپنا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیجئے ۔  

بے اعتدالی
سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنا آج کل اہم ہے لیکن اس میں اعتدال کی حد کو کراس نہ کریں۔ ضرورت سے زیادہ وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں اور خاندان سے بھی کٹتے چلے جاتے ہیں۔ ہم ہرگزیہ کہتے کہ سوشل میڈیا چھوڑ دیں کیونکہ یہ رویہ آپ کی اہم معلومات تک رسائی روکے دے گا جن کا ایک بڑا ذریعہ آج کل سوشل میڈیا ہے۔ بلکہ جس پر ہم زور دے رہے ہیں، وہ ہے اعتدال کی حد کو قائم رکھنا۔  

ورزش سے یادداشت مضبوط کریں How to Prevent memory loss with exercise

dementia symptoms

ورزش نہ کرنے کا مطلب بڑھاپے یادداشت کھونے  کو جلد ی آنے کی دعوت دینا ہے

ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جو غیر فعال یا سست رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے جو مضراثرات زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ شاید بہت کم لوگوں کو ہو۔ اگرچہ مرد وعورت یکساں طور پر جلد بڑھاپے کا شکار ہوسکتے ہیں اگر ان میں غیر فعالیت یا سستی پن کا مظاہرہ غیر معمولی ہو۔ لیکن خواتین میں بڑھاپے کے اثرات بد مردوں کی نسبت جلدظاہر ہوتے ہیں۔ 


موجودہ تحقیق ، جس میں یہ انکشاف ہوا ہے، میں قریبا 1500 خواتین کو مدعو کیا گیا تھا۔ سب کی عمریں 64 سے 95 سال کے درمیان تھیں۔ واضح ہو کہ ایسی خواتین کا انتخاب کیا گیا جن میں دو باتوں میں سے ایک بات پائی جاتی ہو۔ یا تو وہ دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزار تی تھیں اور یا پھر ان کی یومیہ ورزش کا دورانیہ چالیس منٹ سے کم پر محیط ہوتا تھا۔ 

ایسی خواتین اور وہ وہ خواتین جو ان کے برعکس زیادہ محنت سے ورزش کرتی ہیں یا زیادہ تر وقت چلتے پھرتے گزار تی ہیں، ان میں ایک مماثلت تو پائی گئی کہ دونوں کی خلیے فعال تھے۔ تاہم زیادہ ورزش کرنے والی خواتین کے مقابلے دوسری خواتین میں جلد بڑھاپے کے نشاندھی کی گئی۔

dementia

ڈی این اے اور عمر کی زیادتی
ڈی این اے اور عمر میں اضافے کے درمیان زبردست مناسبت پائی جاتی ہے ۔ وہ اس طرح کہ عمر کے بڑھنے سے خلیات کی عمر بھی بڑھتی ہے اور یوں ڈی این اے کی حفاظت کرنے والے عناصر دن بدن کمزور پڑتے جاتے ہیں۔ 

جلد بڑھاپے کے اثرات سے بچنے کے تین مختصر ٹوٹکے
محققین کا کہنا ہے کہ بڑھاپے کا جلد شکار اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی صحت ٹھیک نہیں رہتی اور طرز زندگی غیر پیشہ ورانہ اور غیر زمہ دارانہ ہوتاہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے تین باتیں یا د رکھنے لائق ہیں۔
1۔ ہم دم فعال رہنا
2۔ کثرت سے ورزش کرنا
3۔ دن میں 10 گھنٹے سے زائد نہ بیٹھنا  

بڑھاپا ڈی این اے پر کیسے اثر انداز ہوتاہے؟
بڑھاپے کے نمودار ہونے کے وقت ننھی سی ٹوپی ، جو ڈی این اے کے سرے پر ہوتی ہے، یکدم سکڑنے لگتی ہے۔ اس ٹوپی کا نام سائنس کی دنیا میں ٹیلومیر ہے جو کہ جوتے کے فیتے کے سرے پر لگی پلاسٹک کی مانند ہوتی ہے ۔ ٹیلومیر کی لمبائی بھی اہم ہے کیونکہ اس سے ہماری نامیاتی عمر کا اندازہ ہوتاہے۔ ایک کرونولوجیکل عمر ہوتی ہے جس کا ٹیلومیر کی لمبائی سے کوئی جوڑ وتعلق نہیں ہے۔  

ٹیلومیر کو سکڑنے سے بچائیے
ٹیلو میر کا سکڑنا یا چھوٹا ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے کئی جان لیوا امراض لاحق ہوسکتے ہیں جن میں قابل ذکر شوگر، اور امراض قلب ہیں۔ کینسر بھی اس کی وجہ سے ہوسکتا ہے ۔ مزید برآں، ٹیلومیر کی لمبائی سے یہ بھی اندازہ ہوسکتاہے کہ آپ کو روزنہ کتنی ورزش کی ضرورت ہے۔  

dementia symptoms

خواتین اور ٹیلومیر
مردوں کے برعکس ، خواتین ٹیلومیر کے چھوٹا ہونے والی پریشانی سے زیادہ آسانی سے بچ سکتی ہیں کیونکہ ان کے لیے تجویز کردہ روزانہ ورزش کا دورانیہ تیس منٹ ہے۔ اگر کوئی خاتون بغیر کوئی کام کیے طویل وقت کے لیے بیٹھی رہے لیکن روزانہ باقاعدگی سے تیس منٹ ورزش کرے تو وہ اس خطرے سے بچ سکتی ہے۔  

ورزش کس عمر سے شروع کریں؟
عام طور پر لوگ جب بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو انہیں ورزش کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ یہ احساس خوش آئند ہے لیکن مفید نہیں۔ ورزش کی ابتدا ئ نوعمر ی میں ہونی چاہیے۔ جسمانی طور پر فعال رہنا زندگی بھر کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ہردم چست رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اگرچہ ہم 80 کے پیٹے میں ہوں۔  

Thursday, 27 April 2017

اپنے آپ سے محبت کرنے کے تین آسان طریقے


increase self esteem
اپنے آپ سے محبت کرنے کے تین آسان طریقے

ایک سوال ، جو اکثر پوچھا جاتاہے، یہ ہے کہ پہلی ترجیح اپنی ذات ہونی چاہیے۔ ایک مشہور محاورہ ہے ، جان ہے تو جہان ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ دوسروں کی مدد تب کرسکیں گے، آپ دوسروں کا خیال تب رکھ سکیں گے جب جسمانی اور ذھنی طور پر آپ مکمل صحت مند ہونگے۔ اکثر آپ کے رشتہ دار   اور دوست یہی کہتے نظر آتے ہیں "اپنا خیال رکھیے گا"۔ اس جملہ پر کبھی غور کیا؟ جی ہاں اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سےپہلے اپنے آپ کو سمبھالیے گا۔ 

اپنے آپ سے محبت کامیاب ہونے کا ذریعہ ہے
ایک دانا کا قول ہے کہ اپنی عزت خود کرو تو سارے کام سیدھے ہوجاتے ہیں۔ جو اپنی عزت خود نہٰیں کرتے دوسرے لوگ بھی ان کی عزت نہیں کرتے۔ اس دنیا میں سارے کام اس بات پر منحصر ہیں کہ آپ خود کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان متکبر اور خود غرض ہوجائے ۔ تکبر ایک برائی ہے جبکہ عزت نفس ایک خوبی ہے۔ ان میں فرق بڑا باریک ہے ، یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے۔  

اپنے آپ سے محبت کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ یہ کامیابی کا راستے کھول دے گا۔ ہاں اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے کی کنجی یہ ہے کہ اپنے آپ سے آپ محبت کریں۔

نمبر 1 – خودی کے ناقابل یقین فوائد کو پہچانئے

خود سے اور دوسروں سے محبت کرنے کے کئی زبردست وجوہات ہیں۔ مختصر لفظو ں میں یو ں کہا جاسکتا ہے کہ جس چیز کے لیے ہم کمر کس لیں وہ نسبتا آسان ہوجاتی ہے۔ پہلے پہل وہ مشکل لگتی ہے لیکن جونہی ہم اس کام میں لگ جاتے ہیں اور دل سے اس میں اپنا وقت صرف کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہی کام جس کو ہم ناممکن سمجھ رہے ہوتے ہیں، آسان معلوم ہونے لگتاہے۔ 

ہر وقت احساس شرمندگی میں رہنا، غصہ کو پالے رکھنا، اور خود کو قصور وارٹھہراتے رہنا پسندیدہ نہیں ہے۔ ماضی کو بھول جائیے اور پھر سے نئے سرے سے ابتدا کیجئے۔ اپنے اندر تخلیقی صلاحیت اور ہمت پیدا کیجئے۔ دوسروں کو  قبول کرنے کا جذبہ پیدا کیجئے۔ سامنے والا اگر آپ کے سامنے بات کررہا ہوتو ضرور اس کی بات کان لگا کر سنیے۔ دوسرے بھی اتنے اہم ہیں جتنے کہ آپ۔ دوسروں سے عزت تب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب آپ ان کو عزت دینا سیکھیں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھئے لیکن ان غلطیوں کو ہر وقت ذہن میں سمائے رکھنا آگے بڑھنے سے آپ کو روک سکتاہے۔ دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنا چھوڑ دیجئے۔ آپ جو ہیں ، اسی پر قناعت کیجئے اور دوسروں کی کامیابی پر حسد کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کیجئے ۔ اگر کسی وقت ناکامی کاسامنا ہو تو جرات کے ساتھ اس کو قبول کیجئے اور دل میں یہ سو چ لیجئے کہ اس نے ترقی کے سیڑھی مزید قریب کردی ہے۔  

نمبر 2 – اپنے آپ سے ہمدرد ہوجائیے
اپنے آپ سے ہمدرد ہونا آسان نہیں ہے۔ مثلا جب آپ بیمار ہوجاتے ہیں، تو کئی دن یہ سوچ کے گزاردیتے ہیں کہ چلو رہنے دو، دو تین بعدخود ہی صحت اور طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔ لیکن یہ غلط سوچ ہے۔ یہ اپنے آپ سے ہمدرد ہونے کے منافی ہے۔ اس موضوع پر مارکیٹ میں مختلف کتابیں دستیاب ہیں، موقع ہو تو ضرور پڑھئے۔ اپنے آپ پر ظلم نہ کیجئے اور بیمار ہونے کی صورت میں فورا اپنے معالج سے مشور ہ کیجئے ۔ 

مجھے کئی لوگوں سے  بیٹھنے کا اتفاق ہوا، کبھی بالمشافہہ، اور کبھی فون پر  جو یہ رونا روتے ہیں کہ زندگی کرب اور پریشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔  اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ مثلا ماضی میں کوئی اندوہناک حادثہ رونما ہوا ہو جس نے انسان کو شکست وریخت سے دوچار کردیا ہو۔ ماضی میں انسان کسی دوسرے کی طرف سے گالم گلوچ کا شکار رہا ہو۔ ماضی میں غلط چیزوں کا انتخاب کیا ہو۔ زندگی میں کسی مقام پر ہونے کی توقع ہو لیکن بدقسمتی سے وہ مقام حاصل نہ ہوا ہو۔  

ایک آدمی اسی طرح کا رونا میرے سامنے روتا رہا۔ وہ بے رحمی سے اپنے آپ کو کوستا رہا اور ہر طرح سے مجھے قائل کرتا رہا کہ کیوں میں قابل نفرت ہوں۔ وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں اچھی زندگی کا بالکل بھی مستحق نہیں ہوں کیونکہ ماضی میں نے ناقابل معافی غلطیاں کی ہیں۔ جب اس نے اپنی بات ختم کی تو میں نے آخر میں کہا کہ آپ اب بھی اپنے آپ سے محبت کرسکتے ہیں۔ آپ اب بھی اپنی نظر میں عظیم بن سکتے ہیں۔ اس نے مجھے ناراضگی سے دیکھا کیونکہ اسے اس قسم کے جواب کی توقع ہرگز نہ تھی۔ لیکن میں مسلسل اسے یہ کہتا رہا کہ تم عظیم ہو۔ تم اپنے آپ سے محبت کرو اور اپنے اندر خود ی پیدا کرو۔

نمبر 3 – خود سے باتیں کیجئے
ہم سارا دن دوسروں سے باتیں کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمیں خود سے بھی باتیں کرنی چاہییں؟ خود کلامی بادی النظر میں ایک بے وقوفانہ فعل ہے جس کا صدرو ایسے شخص سے ممکن ہے جو عقل کے خلل میں مبتلا ہو۔ لیکن ٹھرییے ۔ ایسا ہرگزنہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنے آپ سے باتیں کیجئے ۔ 


Wednesday, 26 April 2017

وٹس اپ نے دنیا پر راج کیسے کیا؟

whatsapp app
وٹس آپ کیسے ایجاد ہوئی ؟

وہ بڑا ضدی واقع ہوا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کی ضد تھی وہ یہ سودا فیس بک کے دفتر یا عالیشان ہوٹل میں نہیں کرے گا بلکہ شہر کی فلاحی عمارت میں ہی کرےگا۔ ہر چند کہ فیس بک کی انتظامیہ نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ سودا غیر معمولی تھی اور فیس بک انتظامیہ کسی صورت یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ لہذا وہ لوگ اس ضدی آدمی کے سامنے ہار 
مان گئے اور اس کی پسندیدہ جگہ پر معاہدہ کرنے پر راضی ہوگئے۔ 

اس سے پہلےکہ فیس بک والے اس عمارت تک پہنچتے ، یہ پہنچا ہوا تھا۔ آخر میں واقع ایک بوسیدہ کرسی پر بیٹھا سرجھکائے کسی سوچ میں مشغول تھا۔ لوگ قریب آئے اور جھکی ، پست، اور آہستہ آواز سے انگلش میں کہا
We are Here Mr Jain
اس نے ٹشو پیپر سے اپنے چھلکتے آنسو پونچھے ، ہاتھ میں قلم لیا اور معاہدے کے کاغذات پر دستخط ثبت کردیے۔ معاہدہ کافی لمباچوڑا تھا، وہ دسختط کرتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 19 بلین ڈالر کابلا شرکت غیرے مالک بن گیا۔ قریبا 38 سال کی عمر میں ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر میں امیر ترین جاندار کہلاتے ہیں۔  


کہانی کا پس منظر

جین کوم نامی اس شخص کی کہانی تو اس سنٹر سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے فیس بک کے ساتھ معاہدہ کیا۔ لیکن یہ مکمل ابتدا نہیں ! اس سے پہلے یوکرائن آتا ہے جہاں اس شخص کے آباواجداد رہتے تھے۔ اس کا خاندان یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک مفلس ولاچار خاندان تھا۔ انتہائی کسمپسری کی حالت میں بتائے دن اس خاندان کی قسمت میں ازل سے لکھ دیے گئے تھے، گھر میں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورتیں تک دستیاب نہیں تھیں۔ گرمیاں توجیسے تیسے گزرجاتیں لیکن سردیوں میں ان کی حالت 
دیدنی تھی، اور یہ بھیڑوں کے ساتھ سونے پر مجبور ہوتے۔ 

غربت میں اضافہ
پہلے ہی یہ لوگ خط غربت سے نیچے لیل ونہار بتانے میں مجبور تھے، ان کے معاش پر مزید زد اس وقت پڑی جب 1992 میں یہودیوں پر ایک بار ظلم شروع ہوگیا ۔ اس خاندان میں اختلاف ہوا کہ اس ظلم کی بنا پر وطن چھوڑ دیا جائے یا یہیں پر رہ کر گزارہ کیاجائے ۔ والدہ ایک طرف تھی اور والددوسری طرف۔ والد یہاں رہنے پر مصر تھے جبکہ والدہ وطن بیزار۔ ماں نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا، ضروری سامان، جن میں بیٹے کی پڑھائی کی کتابیں بھی تھیں، بیگ میں ڈالیں اور امریکا مستقل طور پر منتقل ہوگئے۔ کیلیفورنیا اب ان کا نیا دیس بن گیا جہاں ان کے پاس نہ گھر تھا اور نہ روزگار۔  

خیراتی کھانا کھانے پر مجبور ماں بیٹا
کیلیفورنیا میں دونوں ماں بیٹا خیراتی کھانا کھانے پر مجبور تھے۔ اس دیار غیر میں ایک فلاحی سلسلہ چل رہا تھا جو کہ شاید اب بھی ہے، جس کو لوگ فوڈ سٹمپ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ادارہ غریبوں کو مفت کھانا فراہم کرتاہے ۔ غربت کے ہاتھوں مجبور ماں بیٹا یہی کھانا کھانے پر مجبور تھے۔ چونکہ پڑھائی کا خبط جین کوم پر بچپن سے سوار تھا، اس نے پڑھائی جاری رکھی لیکن پڑھائی کرنے کے لیےبھی تو پیسہ چاہیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ پارٹ ٹائم جاب کی تلاش میں سرگرداں ایک جنرل سٹور پر اسے نوکری ملی اور وہ بھی خاکروب کی۔ سٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم تک سب صفائی اس کے ذمہ لگادی گئی ۔ کئی سالوں پر محیط یہ نوکری اسے ایک اور جنون کی طرف لے گئی اور وہ تھا کمپیوٹر پروگرامنگ کا جنون۔  

یاہو میں نوکری اور فیس بک پر نظریں 
1997 میں اسے یاہو کی طرف سے پیشکش ہوئی اور فورا اس نے وہ نوکری جوائن کرلی ۔ نوسال تک ایک کم درجے کی نوکری کی اور خاموشی سے یہ تھکادینے والا عرصہ گزارا۔ 2004 میں فیس بک لانچ ہوئی اور مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑتے چلی گئی ۔ یہاں تک 2007 میں اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہونے لگا۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جین کوم نے یاہو کو خیر باد کہنا چاہا اور فیس بک میں اپلائی کردیا۔ نتیجۃ ً فیس بک والوں نے اس کی درخواست کو یہ سوچ کر مسترد کردیا کہ اس لڑکے میں کوئی خاص ٹیلنٹ نہیں ہے۔  

آئی فون خریدنے کا شوق
فیس بک سے مسترد کیے جانے کے بعد اس کے پاس یاہو میں کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اس طرح اس میں مزید دوسال وہاں کھپائے۔ حالات اس قدر اچھے نہ تھے کہ وہ اپنے ائی فون خریدنے کی خواہش کو پورا کرتا۔ اس نے حل یہ نکالا کہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرنا شروع کردیے۔ قوت خرید حاصل ہونے پر اس نے آئی فون خریدا جو کہ اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔  

آئی فون کے استعمال سے نیا آئیڈیا ملا
آئی فون کے فیچر اس قدر زبردست تھے کہ اس نے اس کے لیے سوچ کی نئی راہیں کھول دیں۔ اس نے سوچا میں کیوں نہ ایک ایسا پروگرام یا ایسی ایپلی کیشن  بنائوں جو ایس ایم ایس کامتبادل ہو۔ نہ صرف یہ اس میں مسیج کرنے کی سہولت ہو بلکہ تصویریں، آڈیو، اور وڈیو بھی بھیج جاسکے ؟ مزید برآن اس کو کوئی ہیک بھی نہ کرسکے ۔ آئیڈیا واقعی انوکھا تھا اور اس پر کام کرنا اس سے بھی زیادہ انوکھا۔ اپنے ایک دوست برائن ایکٹیون کے ساتھ یہ خیال شئیر کیا اور یوں دونوں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں دن رات ایک کرنے لگے۔ دوسال کی ان تھک محنت کے بعد انہوں نے وٹس اپ نامی ایک ایپلی کیشن ایجاد کی اور دیکھتے ہی دیکھتے 2009 میں رونما ہونے والی اس ایپلی کیشن نے کمیونیکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ پوری دنیا کو جوڑنے والی یہ ایپ اب ہر سمجھدار آدمی کے سمارٹ فون کی زینت ہے۔  


فیس بک کی وٹس اپ میں دلچسپی
2014 آیا ، اور فیس بک نے وٹس اپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کردی۔ دنیا بھر کی کمپنیاں فیس کے مدمقابل آکر اس کی بولی لگانی لگیں لیکن جین کوم ہر ایک انکار کرتا رہا۔ فیس بک کیطر ف سے بولی ملنے پر جین کوم کی ہنسی نکل گئی اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے
" یہ وہ ادارہ ہے جس نے 2007 میں مجھے نوکری دینے سے انکار کردیا تھا"

ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا اور اسی دوران اس نے فیس بک کو ہاں کردی اس لیے کہ رقم اس کی سوچ سے بڑھ کر تھی۔ جی ہاں ! 19 بلین ڈالر میں سودا پکا ہوگیا۔  

وٹس آپ – تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ

اس وقت تقریبا ایک ارب لوگ اس ایپ کو استعمال کررہے ہیں اور دنیا بھر میں اس کو محفوظ ترین اور تیز ترین ذریعہ ابلاغ تصور کیا جاتاہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں تو پاکستانی نمبر پر یہ ایپ اگر رجسٹر ہے تو نیا نمبر اور نیا فون لینے کی ضرورت نہیں۔ پوری دنیا میں رابطے کے لیے آپ کا یہی پاکستانی لوکل نمبر ہی کافی ہوگا۔ 

وٹس اپ کی کہانی ہمیں عزم وہمت کا سبق سکھاتی ہے
یہ داستان ثابت کرتی ہے کہ انسان ڈٹا رہے اور مقصد کی لگن کو دل سے مٹنے نہ دے تو اللہ تعالی انسان کو ضرور کامیابی سے نوازتے ہیں۔   

Tuesday, 25 April 2017

ٹریفک حادثات کی پانچ وجوہات

causes of road accidents in pakistan


ٹریفک حادثات کی پانچ  وجوہات

ٹریفک کے حادثات نئے نہیں ہیںِ یہ تب سے ہیں جب سے ٹریفک وجود پذیر ہوا ہے۔ ٹریفک حادثات پاکستان میں بھی ہوتے ہیں، اور دوسرے ممالک میں بھی، لیکن وجوہات قدرے مختلف ہیں۔ اس کالم کا مقصد دوسرے ممالک کے حادثات کی وجوہات جاننا نہیں، بلکہ پاکستان میں یہ حادثات کیوں اتنی کثرت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، ان کے اسباب پر قدرے نظر ڈال لیتے ہیں۔ 

پہلا سبب  - اصولوں پر سمجھوتہ نہیں
ہماری قوم اپنے اصولوں کی بہت پکی ہے۔ اصولوں پر عمل کرنا ہمارے رگ وریشے میں داخل ہے اور اس سلسلے میں ہم اتنے جذباتی واقع ہوئے ہیں کہ اس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ کچھ دوستوں کے ساتھ ایک تقریب سے واپسی ہورہی تھی، سب دوست گاڑی میں خوش گپیوں میں مصروف تھے اور تقریب کا احوال دہرارہے تھے۔ دوران "پرواز" دوبسیں سامنے سے آتی دکھائی دیں، مجال ہے کہ ان میں کوئی آگے یا پیچھے ہو، بالکل سیدھ میں ہماری طرف ایسے بڑھ رہی تھی، جیسے وہ آپس میں مقابلے کرنے کے بجائے ہمیں مارنے میں پہل کررہی تھی۔ ہمارا ڈرائیور بجائے اس کے کہ ان سے کنی کتراتا، سیدھا ان کی طرف چلا جارہاتھا۔ ہم خاموش تھے، یہی سوچ کراپنے غصے پر قابو رکھے ہوئے تھے کہ قریب آنے پر ہمارا ماہر فن ڈرائیور "کچے " پر اتار لے گا اور اس طرح ہماری جان بخشی ہوجائے گی۔ لیکن یہ کیا، بسیں بالکل قریب آگئیں، اور میں نے ہڑبڑاتے ہوئے  اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھا اور کہا بھئی کیا کررہے ہو؟ ڈرائیور نے نہ چاہتے ہوئے گاڑی کچے پر موڑ لی اور ہم قریب ہوئی موت کا شکار ہونے سے بچ گئے۔

 جب حواس بحال ہوئے تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا بھائی کیا با ت ہے کہ آج تم اپنی جان کی پرواکررہے تھے اور نہ ہماری جان کی ؟ جواب آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ بولا آپ کی وجہ سے میں نے اپنا اصول توڑ دیا ہے۔ میں تو اپنی سیدھ اور لائن میں جارہاتھا وہ دونوں غلط لائن پر تھے۔ میں اپنی لائن تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 

دوسرا سبب – ہم لوگ فضول چیزوں پر وقت ضائع نہیں کرتے
وقت بہت قیمتی چیز ہے۔ اس کا احساس جہاں دوسری اقوام کو ہے ، ہماری قوم بھی وقت کی قدر شناس ہونے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ سرخ بتی پر کھڑا ہونے میں چند سیکنڈ ضائع کرنے میں بھلا کونسی دانشمندی ہے؟ خصوصا جبکہ یہ وہ نشان ہوتاہے جو ہم بارہا دیکھ چکے ہوتے ہیں۔  دوران ڈرائیورنگ دائیں یا بائیں جانب مڑنے کے لیے انڈیکیٹر دبانے بیٹھ جائیں تو سگریٹ یا موبائل فون کی مصروفیت میں خلل آسکتاہے جو کہ کسی طور عقل کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس لیے موبائل فون سے ہاتھ ہٹانے میں ضروری گفتگو رک سکتی ہے اور یوں ایک بزنس میٹنگ، جو کہ کل صبح گیارہ بجے طے ہونی ہے، منسوخ ہوسکتی ہے۔ یا دوران سگریٹ نوشی ، دوسرے کام میں مصروف ہونے سے آتش زدگی کا امکان بڑ ھ سکتاہے۔  

تیسرا سبب – قومی ثقافت بہت اہم ہے
ہم نہایت تیزر فتار ی سے گاڑی چلاتے جارہے ہیں، مین روڈ ہے جہاں ٹریفک اپنے عروج پر ہے۔ راستے میں کوئی عزیز یا رشتہ کھڑا ہے جو گاڑی یا ویگن کے انتظار میں گرمی یا سردی میں بے چین ہے۔ اس وقت ہماری قومی ذمہ داری اور ثقافتی ورثے میں ملا ہوا احساس ہمدردی  اس بات کے متقاضی ہیں کہ گاڑی روکو اور اس کو بٹھالو۔ اس وقت یہ سوچنا کہ سو دوسو گز آگے گاڑی روک لیں گے تاکہ پیچھے آنے والی گاڑیاں کسی ناگہانی آفت اور حادثے کا شکار نہ ہوجائیں، بالکل فضول ہے جس سے ہمارے احساس ہمدردی پرزد پڑسکتی ہے۔ کیا ہوگا اگر پیچھے آنے والی گاڑی کے بیس پچیس لوگ حادثے کا شکار ہوجائیں؟ ان کی جانیں ہماری ثقافت سے زیادہ تو نہیں !!!  

چوتھا سبب – عوام اور پولیس کا باہمی تعاون
ہماری قوم بہت غریب پرور ہے، پولیس، جس کی تنخواہیں بہت کم ہیں، ان کا تعاون کرنا ایک قومی فریضہ بنتا جارہا ہے۔ بھلا یہ کونسی سی عقلمندی ہے کہ پولیس سے "مالی تعاون" کرنے کے بجائے ٹریفک کے اصولوں کی پابندی شروع کردی جائے؟ یہ ملک جو کہ پہلے غربت کی چکی میں پس رہا ہے، اس مالی تعاون کے بغیر صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔  

پانچواں سبب – ہر شخص "مفکر " ہونے کے بجائے "متفکر" ہے !!!
دوسری اقوام میں مفکر پیدا ہوتے ہیں، جبکہ ہماری قوم میں "متفکرین" کی ایک بڑی تعداد وجود میں آچکی ہے۔ دوران ڈرائیورنگ ، انسان یہاں تفکرات کی دنیا میں گم ہوتاہے۔ پرائیویٹ سکول والوں نے دھمکی دی ہے اگر دس تاریخ تک فیس ادا نہ کی تو بچے کا نام سکول سے خارج کردیا جائے گااور بھاری جرمانے کے ساتھ دوبارہ داخل ہوگا۔ بیوی کی فلاں فرمائش پوری نہ ہونے پر وہ آج روٹھ کے میکے چلے گئی ہے۔ یہ اور اس طرح کے "تفکرات" میں الجھا انسان جب ڈرائیورنگ کرے گا تو محفوظ سفر کی کوئی ضمانت نہیں۔  

Monday, 24 April 2017

کیا افغان طالبان واقعی حکومت سے مذاکرات کررہے ہیں؟



کیا افغان طالبان واقعی حکومت سے مذاکرات کررہے ہیں؟

افغانستان میں جو کشمکش جاری ہے، بلاشبہ ان مسائل میں سے ایک ہے جو پاکستانی عوام اور حکومت کے قابو میں نہیں ہے۔ یہ سوال ہر ذہن میں گردش کررہا ہے کہ کیا طالبان حکومت سے مذاکرات کرنے کو ترجیح دیں گے یا اپنی توانائیاں جنگ جاری رکھنے پر خرچ کرتے رہیں گے؟ گوکہ یہ سوال کافی زمانے سے لوگوں کے ذہن میں سمایا ہوا ہے لیکن اس میں ابھار اس وقت آیا جب ایک نیوز رپورٹ نے دعوی کیا کہ ستمبر اور اکتوبر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور کابل کے تحت نشین حکمرانوں کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے ہیں۔ طالبان نے اپنی عادت کے مطابق اور لوگوں کی توقعات کے عین مطابق فوری طور پر اس کی تردید جاری کرنا ضروری سمجھا۔ نہ صرف یہ کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان مذاکرات کی تردید کی ، بلکہ انکے سیاسی کمیشن کے رکن سہیل شاہین نے بھی اس کا انکار ضروری سمجھا۔ البتہ تردید میں فرق یہ تھا کہ ذبیح اللہ مجاہد نے لگی لپٹی بغیر دوٹوک الفاظ میں مسترد کردیا البتہ سہیل شاہین نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے ایک سیاسی چال قرار دیا۔ 

اس خبر کو مستر د کرنا آسان نہیں تھا !
خبر جن ذرائع سے موصول ہوئی، ان کا سابقہ ریکارڈ اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ بیک جنبش قلم اس کو مسترد کردیا جائے۔ گارڈین ، جو کہ ایک موقر جریدہ اور اخبار ہے، اس کے مطابق ان مذاکرات کا ہونا یقینی تھا۔ خبر کی ساکھ کو مزید تقویت اس وقت ملی جب یہ خبر آئی کہ ان مذاکرات میں امریکی افسران بھی شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں ، کچھ طالبان نمائندوں نے بھی اس خبر کی تصدیق کی البتہ یہ تصدیق بے نام ذرائع سے تھی۔ دوسری طرف صدر اشرف غنی کے دفتر اور افغان ہائی پیس کونسل کے ترجمان سے بھی اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ یہاں ایک نکتہ قابل غور یہ ہے کہ اگر واقعی افغان طالبان کے حکومتی اہلکاروں سے مذاکرات ہوئے ہیں تو افغان صدر اشرف غنی لاعلم کیسے رہ سکتے ہیں حالانکہ ان مذاکرات کے لیے صدر کی اور افغان پیس کونسل کی منظور ی ضروری تھی۔  

ملامحمد عمر کے بھائی کی اعلی انٹیلی جنس افسر سے ملاقات !
کچھ میڈیا رپورٹس ایسی بھی موصول ہوئیں جن میں ملامحمد عمر رحمہ اللہ کے بھائی ملا عبد المنان کی اعلی انٹیلی جنس افسر محمد معصوم ستان کزئی سے ملاقات کا دعوی کیا گیا۔ کچھ اطلاعات تو ایسی بھی ہیں کہ اس ملاقات میں صدر غنی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمر بھی موجود تھے۔ مگر زیاد ہ تر رپورٹس میں اعلی افسران کی ملاقات کا دعوی کیا گیا ۔  

کیا ملا عبد المنان کی ملاقات اہم ہے؟
مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کو جمع کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ملاعبد المنان کی ملاقات اتنی اہم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملاقات ان کی ذاتی حیثیت سے تھی، نہ کہ طالبان کے نمائندہ کے طور پر۔ طالبان کے تمام معاملات شورائی نظام کے تحت چلتے ہیں اور ان کی تنطیم کا نام طالبان رہبری شوری ہے ، وہ اس منظر نامے میں یکسر غائب نظر آتی ہے ۔ اسی طرح طالبان کے امیرالمومنین اور سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ کی جانب سے ایسا کوئی گرین سگنل نہیں ملا کہ وہ اپنے اہلکاروں کو اس میٹنگ یا مذاکرات میں شرکت کی اجازت دے رہے ہوں۔ ان مذاکرات کی عدم اہمیت اس وقت مزید اجاگر ہوجاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ طالبان کا سیاسی کمیشن اس میٹنگ میں موجود نہ تھا، حالانکہ عین اسی وقت ، جس وقت کہ یہ مذاکرات مبینہ طور پر چل رہے تھے، یہی سیاسی کمیشن دوحہ قطر میں موجود تھا۔ قطر میں موجودگی کے باوجود میٹنگ میں شرکت نہ کرنا معنی خیز ہے۔  

کیا پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرسکتاہے؟
اگرچہ دنیا کی نظر میں پاکستان واحد ملک ہے جس کا طالبان پر اثررسوخ ہے اور وہ طالبان کو مذاکرات پر نہ صرف آمادہ کرسکتاہے بلکہ ان مذاکرات میں موثر بھی ثابت ہوسکتاہے۔ لیکن بدقسمتی سے صورتحال ایسی نہیں ہے۔ طالبان جو ایک وقت میں پاکستان کو اپنا دوست سمجھتے تھے، اپنے اس خیال سے رجوع کرچکے ہیں۔ طالبان کی قیادت کا پاکستان سے گرفتار ہو نا اور پھر امریکہ کے حوالے کیا جانا ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے طالبان کے دل میں پاکستان کا وہ مقام نہیں رہا جو ماضی میں ہوتاتھا۔  

گلبدین حکمت یار کا حکومت سے معاہدہ
گلبدین حکمت یار افغان حکومت سے ایک خاص معاہدہ کرچکے ہیں، لیکن اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ طالبان کے ساتھ حکومت کے معاہدے کی ہوسکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گلبدین کے پاس جنگجوئوں کی کمی ہے۔ طالبان نہ صرف یہ کہ خطے میں اثر ورسوخ رکھتے ہیں بلکہ افراد ی قوت کے ساتھ نمایاں طور پر افغانستان کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔